اردو MULOSIGE

کثیرالزبانی، علقائی، اور با معنی و با مقصد راہیں: عالی ادب کو کس پیرائے

میں سمجھا جائے

Sadi in a Rose garden, Attributed to Govardhan – newsdesk.si.edu

پچھلی دو دہائی سے عالگیریت کے حل کے حوالے سے عالی ادب کا پرانا مفروضہ

نئے تعلق سے سمجھانا ظروری ہو گیا ہے (جرمن شاعر گیتھے اور مارکس کے بعد

رابندرناتھ تھاکر ۱۹۰۷ میں عالی ادب کی چرچا کر چکے تھے) خاص طور پر

David Damrosch, What is World Literature,) دامروش ڈیوڈ کے ہارورڈ

Pascale Casanova, La République) کزانووا پسکال کے پیرس)، 2003

 سابق کے سٹینفرڈ اور(Mondiale des Lettres, 1999, E. tr. 2004

Franco Moretti, “Conjectures on World) مورٹی فرانکو پروفیسر

نے عالی ادب کی ایسی نئی تعریف بیان کی ہے جسکے (Literature, 2000

world) متابق عالی ادب کا ایک عالی نقشہ یا عالی نظام/ اقتصادی حالت

بن گیا ہے۔ اس نقشہ پر کچھ ہی مرکز ہیں—پیریس، لندن، نئیو یارک (system

(semi-peripheries) یا نیم ہاشیہ (peripheries) وغیرہ، باقی جگہیں ہاشیہ

پر ہیں۔ پسکال کزانووا کے مطابق ادبی عالی جمہوریت میں گرینج لئن کھنچی

ہوئی ہے جو عالی ادب کا مرکز بھی طے کرتی ہے اور حال بھی۔ آپ اس لئن سے

جتنے دور ہوتے ہیں، اتنے ہی فرسودہ اور ثانوی بھی ہیں۔ ان مفروضوں کے چلتے

ادب میں نیاپن ہمیشہ مرکز سے چل کر ہمیشہ ہاشیہ تک پہنچ جاتا ہے اور ہاشیہ

سے مرکز تک نہیں پہونچتا اور نا ہی کسی ایک ہاشیہ سے دوسرے ہاشیہ تک۔

ڈیوڈ دامروش نے بھی عالی ادب کے خیال کو نئے معنی دئے ہیں: عالی ادب بحال

مصنفوںکی جماعت نا ہو کر وہ مصنف اور کتابیں ہیں جو اپنے بنیادی حوالے سے

نکلکر دوسرے ملکوں اور زبانوں میں ادب کے طور پر پڑھی جاتی ہیں، اور انکی فہرست

دلچسپی بدلنے کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہے۔

پھر آج کل عالی ادب وہی ہے جو یا تو انگریزی میں لکھا جاتا ہے یا انگریزی اور

فرانسیسی کا ترجمہ شدہ ہوتا ہے۔ بھلے ہی عالی ادب کی یہ نئی تعریفیں آسانی سے

سچّی اور ٹھوس نظر ائیں لیکن ان میں کئی نقصان دہ پہلو مخفی ہیں۔ جسکی وجہ

سے دنیا کا زیادہ تر ادب عالی ادب نہیں رہ جاتا، اگر کسی بھی وجہ سے کسی عمدہ

تخلیق یا تخلیق کار کا ترجمہ نہیں ہوتا—یا جیسے ہندوستان میں اکثر ہوتا ہے کے

ترجمہ ہونے کے بعد بھی باہر غیر ملک میں اسکے بارے میں کوئی چرچا نھیں ہوتی۔

یہی وجہ ہیں کے ایسے تخلیق کار اور تخلیق عالی سطح تک نہیں پہنچ پاتے۔ اور نام

نہاد مرکز میں بیٹھے تجزیاکار اور صحیح تجزیا نا کر پانے کی وجہ سے ان کی

دلچسپی کا رنگ لیتی ہے۔ کیا یہ سچ ہو سکتا ہے کے جو وہ نہیں جانتے یا جنکا

اشتہار انگریزی زرایع نہیں دیتے وہ دنیا کا ح ّصہ نہیں ہیں، اور سب ثانوی ہیں؟

عالی ادب کے ان مفروضوں کے رو بہ رو جو تع ّصب میں ڈوبی ہو کر بھی غیر جانبدار

نظر آتی ہیں وہ ہمارے اس منصوبے کے مرکزی مقصد سے بالکل الگ ہیں۔ ہم تو یہ

نہیں مانتے کے عالی ادب ایک ہی نقشہ پر پھیل ہوتا ہے اور نا ہی لندن جیسے نام نہاد

عالی ادبی مرکز میں بیٹھکر بھی، مرکز میں بیٹھے قاری تجزیانگار کی ل علمی اور

اندھے پن کو عالی دلچسپی ماننے کو تئیّار ہیں۔ بلکہ ہم یہ مانتے ہیں کے کثیرالزبانی

اور عالی ادب کے علوہ ہر ادب کی بنیادی کیفیت ہوتی ہے اور ہر جگہ (مقامی سطہ

سے لے کر عالی سطہ تک) میں کئی زبانیں، کئی کہانیاں اور کئی راہیں موجود رہتی

ہیں اور رہی ہیں۔ پورے عالم کی ایک ہی کہانی نہیں ہوتی اور اس تک پہنچنے کی لئے

ایک ہی راستہ نہیں ہو سکتا۔ کہانیاں مختلف ہیں اور ان میں آپسی کھینچ تان، اونچ

نیچ، میل جول بھی ہیں اور آپسی بے پرواہی بھی ہے۔ اسی میں ہر ادب کا اور عالی

ادب کی فراوانی ہونا اور مختلف ہونا پوشیدہ رہتے ہیں اسلئے ایک ہی عالی ادب کے

نقشہ کی جگہ، ہم ادب کی با معنی راہوں پر یقین کرتے ہیں جو الگ الگ سمتوں میں

اجتماعی یا انفرادی تاریخ کی رو کے چلتے اکثر گھوم پھرکر دنیا کےکسی مصنف کو

دنیا کے کسی قاری سے جوڑتی ہے، مثلً بیسویں صدی کے شروع میں چینی یا جاپانی

شاعری اردو میں فرانس سے انگریزی کی راہ کے ذریعے پہنچتی تھی، یا ہندوستان میں

افریقی ادب پہلے پہل ۱۹۶۰ کی دہائی کے افریقی ایشیائی بین القوامی تاریخ کے چلتے

قاہرہ مصر کے راستے پہنچا تھا۔

کثیرالزبانی کا دوسرا پہلو یہ ہے۔ سرمایاکاری مخالف قومی تحریک کے تحت

کثیرالزبانی سماجوں میں بھی کثیرالزبانی ایک کمزوری معنی جاتی گئی۔ نئی قوم کو

بنانے کے لئے ایک ہی زبان کی ضرورت محسوس ہوئی تھی، ساتھ ہی ان قومی

تحریکوں کے ساتھ جدید تاریخ کے احساس میں بھی ایک زبان، ایک تہذیب، اور ذات

کے تصّور نے زور پکڑ لیا۔ اس حوالے سے مختلف سطح اور کثیرالزبانی تاریخ نا گوارہ

ہو گئی تھی۔ ایک رسم الخط، ایک زبان اور ایک ذات کے تصّور کی بنیاد پر ادب کی

تاریخ لکھی گئی اور جو بھی زبان یا روایت اس تصّور سے میل نہیں کھاتی تھی، ادب

کی تاریخ سے خارج ہو کر غیر ملکی ٹھہرائی گئی۔ اس طرح ہندوستان میں ۷۰۰ سال

کی فارسی زبان اور ادب کے اثر سے انکار کیا گیا اور اس پر افسوس ظاہر کیا گیا کہ

نا صرف ہندی، اردو اور فارسی کے ادب کی تاریخ جدا جدا لکھی گئی، بعد میں

انگریزی، ہندی اور اردو کی تہذیبی سلسلے بھی ایک ساتھ نہیں دیکھے گئے جیسے

انکے درمیان کوئی تعّلق ہی نا ہو۔

ہمارا منصوبہ عالی ادب کی کثیرالزبانی اور مختلف رنگوں کو تین نقطہٴ نظر سے

دوبارہ اجاگر کرنا ہے۔ ہم تین میدانوں کو لیکر جہاں کئی ادبی زبانوں کا استعمال رہا

ہے، مگر جہاں کثیرالزبانی زیر بحث بھی رہی ہے، وہاں کی زبانوں کے ادبی سلسلے کا

مطالعہ کر رہے ہیں۔ یہ تین علقے شمالی ہندوستان (اور ۱۹۴۷ کا پاکستان بھی)،

مغرب (یعنی مراکش، الجیریا اور تیونس) اور ایتھوپیا سومالیا ہیں۔ ہندوستان میں ہندی

اردو انگریزی پر، مغرب میں عربی پر، فرانسیسی، ہسپانوی اور بیربیرز امازیغ اور

یتھوپیا سومالیا میں امہارک، ارومو، سمالی اور عربی کے ساتھ ساتھ پرکھ رہے ہیں۔

ہمارا دائرہ سرمایاکاری کے دور سے لیکر آزادی کے بعد “سرد جنگ” کے دور (جب کئی

طرح کے بین القوامی سلسلے چل رھے تھے اور موجودہ عالگیریت اور ادب کے اعلی

مزاکرات کے دور تک ہماری معلومات میں ان تینوں کے درمیان کوئی براہِ راست رشتہ

نظر نہیں آتا، اسلئے ہماری تلش آپسی تعّلقات جاننے کی نہیں ہے، بلکہ ھم آپسی ھم

اہنگی اور اختلفات کی تلش میں ہیں۔

ہر ایک میدان میں ہمارے سوال کچھ اس طرح ہیں:

۱۔ سرمایاکاری کے دور کے آنے سے پہلے کثیرالزبانی کی کیا کیفیت تھی اور تبادل

خیال کس طرح ہوتا تھا؟ کیا ہر زبان کی پہنچ یکساں تھی یا الگ الگ، کسی کی زیادہ

یا کسی کی کم؟

۲۔ سرمایاکاری، آزادی اور آج کے دور میں الگ الگ زبانوں کی الگ الگ با مقصد راہیں

بنیں اور بدلیں؟

۳۔ علقائی اور عالی سطح کے ادب میں مختلف پہلو کیسے ظاہر کئے جا سکتے ہیں؟

ان کے مختلف رنگوں کو گم ہو جانے سے کیسے بچا سکتے ہیں؟ عالی ادب کو الگ الگ

جگہوں اور الگ الگ دور میں کیسےمتعاّف کیا گیا؟ یعنی عالی ادب کی تعریف ایک نا

ہو کر نقطہٴ نظر کے ساتھ بدلتی ہے۔

۴۔ کثیرالزبان سماجوں میں لوگ کہاں تک کئی زبانوں میں پڑھتے لکھتے ہیں اور

دوسری زبانوں کے ادب سے واقف رہتے ہیں؟ کیا وہ ہر ایک زبان اور ادب الگ الگ

کسوٹی پر پرکھتے ہیں، یا سب پر ایک نظر رکھتے ہیں؟

۵۔ جو تصنیف عالی سطح پر شہرت یافتہ ہیں، کیا اسے مقامی سطح پر بھی شہرت

ملی ہے؟ اور جو تصنیف یا مصنف مقامی یا قومی سطح پر مشہور ہو گیا ہے وہی

عالی سطح پر بھی مشہور ہو جاتا ہے، یعنی مقامی، قومی اور عالی شہرت کا ایک ہی

پیمانہ ہے؟